کامیابی یقین والوں کو ملتی ہے منگل، 26 مئی، 2020
کامیابی_یقین_والوں_کو_ملتی_ہے
کچھ دوست کھانا کھانے کیلئے ایک ہوٹل پر اکھٹے ہوئے۔ کھانا کھانے کے بعد انہوں نے علیحدہ علیحدہ آنے والے سال میں اپنی توقعات لکھ کر ہو ٹل کے مالک دے دیں اور اس سے کہا کہ ہم ایک سال بعد دوبارہ یہاں آکر کھانا کھائیں گے اس وقت ہمیں یہ دے دینا۔ اگلے سال وہی دوست پھراسی ہوٹل میں اکھٹے ہوئے لیکن اس دفعہ ان میں ایک دوست کم تھا۔ کھاناکھانے کے بعد انہوں نے اپنی توقعات والے صفحے منگوائے۔ جب انھوں نے صفحات کو دیکھا تو حیران ہوئے ۔ ان سب نے صفحات پر جو توقعات لکھی تھیں، وہ سب پوری ہو چکی تھیں۔جو دوست نہیں آتا تھا جب انہوں نے اس کے صفحے کو دیکھا تو اس میں لکھا تھا، ’’ہمارے خاندان کے لوگ بہت عرصہ نہیں جیتے، جلدی مر جاتے ہیں۔‘‘ جب اسے ڈھونڈا گیا تو پتا چلا کہ وہ فوت ہوچکا تھا۔یعنی انسان کا یقین اس کی زندگی کی ہر طرح کی پرفارمنس پر اثر انداز ہوتا ہے۔چڑیا گھر میں ہاتھی کا بچہ لایاگیا۔ وہاں اس کا دل نہیں لگا ۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی تواس کو ایک زنجیر سے ہک کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اس نے ایک دو دفعہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش لیکن زنجیر کے مقابلے میں قوت کم ہونے کی وجہ سے وہ اپنا پاوں زنجیر سے نہ چھڑا سکا اور یوں اس نے اپنی کوشش چھوڑ دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ہاتھی کا بچہ بڑا ہو تاگیا ویسے ویسے اس کی زنجیر بھی بڑی ہوتی گئی۔ جب وہ جوان ہوا تو اس کی زنجیر کھول دی گئی لیکن اس وقت وہ بھاگنا بھول چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتا تھاجو زنجیر میرے پاؤں کے ساتھ لگی ہوئی ہے یہ مجھے بھاگنے نہیں دے گی۔ یقین نظر نہیں آتا، مگر اس کا نتیجہ نظر آتا ہے۔
ہمارے طلبہ کو فزکس آتی ہے، کیمسٹری آتی ہے... مگر یقین بنانانھیں آتا۔خود پر یقین اتنی اہم چیز ہے کہ بعض ذہین طالب علم یقین نہ ہونے کی وجہ سے رہ جاتے ہیں اور بعض اوسط طالب علم یقین کی وجہ سے ٹاپ کر جاتے ہیں۔ یقین اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ یہ انعام ہی ہے کہ تنور پر روٹیاں لگانے والا ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔ خود پر یقین کا مطلب اپنی صلاحیتوں پراعتماد ہونا۔ہمارے تعلیمی نظام میں پڑھایاتو بہت جاتا ہے، مگر یقین نہیں دیا جاتا۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے اساتذہ کرام کی بڑی تعداد ایسی ہے جو بچوں سے یقین چھین لیتی ہے۔ اسی طرح، والدین کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو بچوں سے یقین چھینتی ہے۔یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب کسی کے بارے میں رائے دی جائے تو وہ اس کایقین بننا شروع ہو جاتا ہے۔امریکا میں دو لوگوں کی ٹانگوں میں درد تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ دونوں کا اپریشن ہوگا۔ جب ان کو اپریشن کے لیے لیاجایاگیا تو ان میں سے ایک کااپریشن کیا اوردوسرے کوبے ہوش کرکے اس کی ٹانگ پرچیرا لگاکر پٹی کر دی گئی۔ جب دو ما ہ بعد پٹی کھولی گئی تو دونوں ٹھیک ہو چکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپریشن ان کی ٹانگوں کا نہیں، بلکہ ان کے دماغ کا ہوا تھا۔ یقین بدلنے سے زندگی بدل جاتی ہے ۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،دومنزلیں ہیں ایک وہ جسے تم تلاش کرتے ہواور دوسری وہ جو تمہاری تلاش میں ہے۔اپنی توانائی کے لیول کو وہاں تک لے جاو کہ منزل تمہیں خود ملے۔یقین اگر اس لیول تک پہنچ جائے توقابلیت خود بخودآنا شروع ہو جاتی ہے۔جس شخص کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات چلا رہی ہے وہی ترقی کرتا ہے لیکن جو یہ کہتا ہے کہ یہ میرا کمال ہے اس کی گروتھ رُک جاتی ہے۔جس ذات نے یہاں تک پہنچا دیاوہ ذات آگے بھی بہت کچھ دے گی،فقط نکلنے کی دیر ہے، فقط قدم اٹھانے کی دیر ہے، فقط ارادہ کرنے کی دیر ہے اور فقط یقین کے لیول تک جانا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے۔یہ وہ جملے ہیں جونقش کرنے کے قابل ہیں کیونکہ یہ یقین پیدا کرتے ہیں۔ٹونی رابنزکہتا ہے کہ جو معجزوں کا انتظاکر تے ہیں ان کے ساتھ معجزے ہو جاتے ہیں۔ہماری سوچ سے زیادہ اگر کوئی ذات کام کررہی ہے وہ رب کی ذات ہے۔جہاں عقل ختم ہو جاتی ہے وہ ذات وہاں سے راستے بناتی ہے۔تعلیم اور علم کے لیول سے بڑالیول یقین کالیول ہوتا ہے۔ ڈگری سے بڑی اگر کوئی چیز ہے تو وہ یقین ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے جتنے بڑے صاحب یقین ہیں ڈگری والے ان کے غلام ہیں۔
اگر بندے کے اندر سے یہ آواز آ رہی ہو کہ میں کر سکتا ہوں تو پھر وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور اگر اندر سے یہ آواز آ رہی ہو کہ میں نہیں کرسکتا تو پھر ساری دنیا اس کی ’’ناں‘‘ کو ’’ہاں‘‘ میں نہیں بدل سکتی۔
_اپنے اندر یقین پیدا کرنے کے لیے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں:_
1۔ ہم زندگی میں دو طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک وہ جو دوسرے ہم سے کر تے ہیں۔دوسرے، وہ جو ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ ہمارے لیے زیادہ اہم باتیں وہ ہوتی ہیں جو ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ جب بندہ آپ اپنے سے یہ کہنا شروع کرتا ہے کہ میں کرسکتا ہوں تو پھریقین پیدا ہونا شروع ہو جاتاہے۔
2۔ موٹیویشنل لیکچر یا پرسنل ڈیوپلمنٹ کی کتاب پڑھتے سے یقین کا لیول بلند ہوجاتا ہے۔ اپنے یقین کے لیول کوبلند رکھنے کے لیے ذرائع تلاش کیجیے۔ وہ لیکچر ہوسکتا ہے، وہ کوئی دوست ہوسکتا ہے، وہ کوئی استاد ہوسکتا ہے۔ جو کچھ بننا ہے، پہلے اس کا یقین کرلیجیے کہ میں وہ بن چکا ہوں۔ دنیا کے جتنے بھی بڑے لوگ ہیں، انھوں نے پہلے ہی یقین ہی کیا تھا کہ ہم وہ بن چکے ہیں جو ہم بننا چاہتے ہیں۔
3۔ اپنی پچھلی کامیابیوں کو یاد کرنے سے یقین پیدا ہوتا ہے۔ ایک اسٹوڈنٹ کسی مضمون میں کمزور تھا۔ اس میں اس کے نمبر نہیں آتے تھے جس کی وجہ سے وہ بڑا پریشان رہتا تھالیکن ایک ٹیسٹ کے نتیجے میں وہ فرسٹ آگیا جس وجہ سے اس کے یقین کا لیول بلند ہوگیا۔ جب کامیابی کا ذائقہ ملتا ہے تو یقین کا لیول بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
_یقین کا تیل جمع کرکے کامیابی کادیا جلایاجاتا ہے۔ کامیابی کے بارے میں سوچیں، اِن شاء اللہ آپ کامیاب ہو جائیں گے_
0 comment
Hashtag:
#کامیابی
#مثبت سوچ
#مختصر کہانیاں
You and others